Bulleh Shah | Bulleh Shah Life
بلّھے شاہ |بلّھے شاہ کی زندگی
بلھے شاہ کا اصل نام سید عبداللہ شاہ تھا ۔ ریاست بہاولپور کے ایک گاؤں گیلانیاں
میں ء1680 میں پیدا ہوئے ۔
آپ کے آباؤاجداد حلب سے آکر آباد ہوئے تھے۔
آپ کا تعلق چودھویں پشت میں سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے جا ملتا ہے۔
بلھے شاہ کے والد سخی شاہ محمد درویش عربی اور فارسی کے بڑے عالم اور پارسا
آدمی تھے۔ بلھے شاہ کی عمر ابھی صرف چھ ماہ تھی جب ان کے ماں باپ ملکوال ضلع
ساہیوال آگے تھے۔
ایسی جگہ آباد ہوئے ابھی ٹھورا عرصہ ہی ہوا تھا کہ موضع پانڈو کے جاگیردار
حاکم کو اپنے گاؤں کی مسجد کے لیے امام کی ضرورت پڑ گئی۔ وہ لوگوں کی شفارش پرسخی شاہ محمد درویش کو پانڈو
کے لے آیا۔
آپ نے امامت کے ساتھ ساتھ طالب علموں کی دین کی تعلیم کا کام بھی کیا۔ بعض
لوگوں کے مطابق بلھے شاہ کی جائے پیدائش بھوی پانڈو کے بٹھیاں ہے۔
یہ گاؤں قصور سے تقریبا چوداں میل پر واقع ہے۔
بلھے شاہ نے مڈھلی تعلیم پانڈو کے میں رہ کر حاصل کی۔
اور تعلیم کے لیے قصور تشریف لے گئے۔اس وقت قصور اسلامی تعلیم کا مرکز تھا۔آپ
نے حافظ غلام مرتضیٰ سے اعلٰی تعلیم حاصل کی۔ بعض تذکروں میں آپ کے اُستاد کا نام
غلام محمد محیی الدین ملتا ہے۔
ممکن ہے آپ نے دونوں عالموں سے علمی فیض حاصل کیا ہو۔
بلھے شاہ کی طبیعت میں شروع سے ہی صوفیانہ رجحان غالب تھا۔
اس دور کی ایک کرامت بھی بیان کی جاتی ہے۔
یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب آپ پانڈو کے میں تعلیم کے ساتھ ساتھ جانور بھی
چراتے تھے۔
ایک دن آپ جانور لے کر باہر گئے ہوئے تھے کسی درخت کے نیچے بیٹھے تو آنکھ لگ
گئی، جانوروں نے کھیت اُجاڑ بچھاڑ دیا۔ کھیت کے مالک جیون خان نے اپنے کھیت کی
بربادی دیکھی تو غصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ جانور چرانے والے کو دیکھا تو غصہ
حیرانی میں بدل گیا۔
بلھے شاہ سو رہے تھے اور ان کے سرہانے ایک سیاہ ناگ نے سایہ کیا ہوا تھا۔ وہ
جلدی سے گاؤں کی ترف بھاگا اور آپ کے والد صاحب بتایا کہ آپ کے والد نے میرا
کھیت خراب کر دیا ہے اور وہاں مرا ہوا ہے۔
سخی محمد درویش فکرمندی سے وہاں پہنچے تو بلھے شاہ ابھی سو رہے تھے۔شور سُن کر
سانپ غائب ہو گیا۔
بلھے شاہ نے آنکھیں کھولیں تو سامنے والد صاحب کھڑے تھے۔ اور کہنے لگے ہم
پردیسی لوگ ہیں ہم ان زمینداروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تم جانور کسی کے کھیت میں
مت جانے دیا کرو جیسے اب جیون خان کے چنے کا کھیت اُجڑگیا ہے۔
بلھے شاہ نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ جیون خان کا کھیت تو بلکل سہی سلامت ہے۔
اُن کے والد نے دیکھا تو وہ وسیے ہی سہی سلامت تھا۔ فصل ویسے ہی ہری بھری تھی۔
جیون خان آپ کی کرامت دیکھ کر معتقد ہو گیا اور کھیت آپ کی نظر کر دیا۔
قصور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ مرشد کی تلاش میں لاہور آگئے۔
اُس وقت وہاں حضرت عنایت شاہ قادری کی ولایت کا سورج چمک رہا تھا۔آپ کا تعلق
قادریہ سلسلے کی ایک شاخ شطاریہ سے تھا۔
یہ لوگ بڑی تیزی کے ساتھ مرید کو ’’ فنا بحق اور بقا بحق کی منزل پر پہنچاتے
تھے۔ حضرت عنایت شاہ قادری پہلے قصور رہتے
تھے پھر وہاں کے حاکم حیسن خان کے ساتھ ان بن ہو گئی تو وہا ں سے لاہور آگئے۔
بھلے شاہ نے اُن سے ملنے کا فصیلہ کیا ۔شاہ عنایت ذات دے ارائیں اور باغبانی
کے پیشے سے تعلق تھا۔
بلھے شاہ کی جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ کھیت میں کام کر رہے تھے۔ بلھے شاہ نے
اپنا تعارف کروایا اور کہا،
’’ میں رب دا راہ پچھن آیا واں ’’
جواب میں حضرت شاہ حسین نے کہا:
بلّھیا رب دا کیہ پاوَن اے ، ایدھروں
پٹن ایدھروں لاون اے
یہ بات بلّھے شاہ کو زیر زبر کر گئی
ان سادہ سے لفطوں میں روحانیت کا نچوڑ بھرا ہوا تھا۔
انہوں نے اصل میں یہ بات سمجھنی چاہی کہ روحانی ترقی کا راہ من کو دنیا سے موڑ
کر اندر خدا کے ساتھ جوڑنے میں ہے۔
اگے چل کر یہ دیکھا بھی دیا کہ یہ کام کامل مرشد کے ساتھ ہی سے چڑھ سکتا ہے۔
بلھے شاہ جلدی سے آگے بڑھے اور مرید ہو گئے
آپ نے فرمایا
بلھےشاہ دی سنو حکایت ہادی پکڑیا ہوئی ہدایت
میرا مرشد شاہ عنایت ، اوہو لنگھاوے پار
شاہ عنایت نے آپ کو عبادت ، ریاضیت کے راستے طے کروائے
آپ اس راستے میں اتنا گُم ہو گئے کہ کھانے پینے کا دھیان تک نہ رہا۔ بعض
مرتبا توپتے کھا کر گزار کیا۔ دل اور ذہن کو ایسا نور ملا جس نے آپ کو نور اور
عرفان کی منزلوں تک پہنچا دیا۔ آپ کے عزیزوں اور رشتہ داراوں کو بہت دُکھ لگا کہ
آپ سید ہو کر ایک ارائیں کے ہاتھ بعیت
کیوں کی ۔ انہون نے طعنے دئے لیکن بلھے شاہ نے پکا فصیلہ کر لیا تھا وہ
اُس پر ڈت
گئے۔
بھلے نوں سمجھاون آئیاں بھینا ں تے بھرجئیاں
من لے بلھیا ساڈا کہنا ، چھڈ دے پلہ ارآئیاں
آل نبیؑ اولاد علیؓ نوں توں کیہ لیکاں لائیاں
بلھے نالوں چلہا چنگا جس تے روٹیاں لائیاں
سلوک کے رستے کی پہلی منزل پر اپنے آپ کو مرشد کی ذات میں فنا کرنا ہوتا ہے ۔
یہ بلھے کا جذبہ تھا انہوں نے اپنے مرشد سے مثالی محبت کا اظہار کیا۔
جہیڑا سانوں سید آکھے دوزخ پینگاں پائیاں
جو کوئی سانوں رائیں آکھے بہشتی پینگاں پائیاں
جے توں لوڑے باغ بہاراں ، چاکر ہو جا رائیاں
بلھے دی ذات کی پچھنا ایں شاکر ہو رضائیاں
طریقت کے نور نے بلھے کو ایسے روشن کر دیا کہ ہاتھ سے شریعت کا پلہ نکل جانے
کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
وحدت الوجود کے مسلک میں ایسے ہی مسجد اور مندر کے درمیان فرق معدوم ہونے لگ
جاتا ہے جسے بلھے شاہ اسطرح کہنے لگ گئے
پھوک مصاے بھن سٹ لوٹا ، نہ پھڑ تسبیح عاصا سوٹا
عاشق کہندے دےدے ہوکا ترک حلالوں کھا مُردرا
عشق دی نویں نویں بہار
جاں میں عشق دا پڑھیا ، جیوڑا مسجد کولوں ڈریا
ڈیرے جا کر ٹھاکر دے وڑیا ۔ جتھے وجدا ناد ہزار
عشق دی نویں نویں بہار
وید قرآن پڑھ پڑھ کے تھکے ، سجدے کردیاں گھس گئے متھے
ناں رب تیرتھ نہ رب مکے ، جن پایا تس نور جمال
عشق دی نویں نویں بہار
بھٹھ نمازاں چکڑ روزے کلمے تے پھر گئی سیاہی
بلھا شاہ شوہ اندر ملیا بھلی پھرے لوکائی
بلھیا پی شراب تے کھا کباب بیٹھ بال ہڈاں دی اگ
چوری کرتے بھن گھر رب اوس ٹھگاں دے ٹھگ نوں ٹھگ
شاہ عنایت نوں آپ کی یہ بے باکی اچھی نہ لگی وہ اپنے مُرید کو روحانی نظم
وضبط میں دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ وہ کفا ہو گئے۔
بلھے کو اپنے پاس آنے سے منع کر دیا۔ ٹھورے عرصے بعد ہی بلھے شاہ کی حالت
پانی کے بغیر مچھلی کے ٹرپنے جیسی ہو گئی۔
مرشد کی جدائی ایک پل بھی گوارہ نہ تھی۔
میں نہاتی دھوتی رہ گئی گنڈھ ماہی پئے گئی
درد دہونی پئی در تیرے ، توں ہیں درد رنجانی دا
کوٹھے چڑھ دیاں میں ہوکا عشق وہاجو
کوئی نہ لوکا
اس دا مول نہ کھانا دھوکھا ، جنگل بستی ملے نہ ٹھور
جے دیدار ہویا جد راہی ، اچن چیت پئی گل پھاہی
ڈاہڈی کیتی بے پرواہی، مینوں ملیا ٹھگ لاہور
آخر کار بلھے شاہ نے اپنے مرشد کی محبت پانے کے لے ایک عورت کا روپ دھار لیا۔
سرنگی پکڑکر ایک دن ناچتے گاتے اپنے مرشد کے سامنے چلے گئے عرض کیا
تیں باجھوں میرا کون ہے دل ڈھاؤ نہ میرا
آؤ عنایت قادری جی چاہے میرا
میاں اڈیکاں کر رہی کدی آکرو پھیرا
شاہ حسین نے دیکھا اور ہنس کر کہا: اوہ تم بلھے ہی ہو ؟ فرمایا نہیں حضرت بھلا
واں ’’ ساتھ ہی مرشد کے پاؤں پڑھ گئے
انہوں نے گلے لگا لیا۔ شاہ عنایت 1760 میں وفات پا گئے۔
بلھے شاہ نے اُن کی گدی پر تقریبا بیس سال لوگوں کو تصوف اور سلکوک کی دولت
بانٹی آخر 1780
میں انتقال کر گئے لیکن ان جیسے
عارفوں اور سالکوں کو موت نہیں آتی انہوں نے خد بھی فرمایا تھا
بلھیا اساں مرناں ناہیں
گور پیا کوئی ہور
Bulleh Shah | Bulleh Shah Life
بلّھے شاہ |بلّھے شاہ
کی زندگی
Bulleh Shah | Bulleh Shah life
Reviewed by online marketing
on
فروری 04, 2020
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: