ADVICE نصیحت| Urdu stories



ADVICE    نصیحت ایڈوائیس

Urdu stories
والدین کی اور بزرگوں کی نصحیت پر عمل
کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ نصیحت پر عمل
کرنے سے انسان نہت ساری پریشانیوں سے
بچ سکتا ہے ۔ کیو نکہ والدین اور بزرگ اپنی
زندگی کے تجربات سے  اپنے اولاد کی
تربیت کرتے ہیں۔ 
خُما رویہ بن احمد بن طولون بیس سال کی عمر میں اپنے باپ کی وفات کے بعد مصر کا گونر بنا۔ خلیفہ معتمد علی اللہ کے زما نہ حکومت 870ء۔92 تک اس کی گورنری مصر میں برقرار رہی۔ جب معتمد کا انتقل ہوگیا تو معتضد باللہ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی ۔ خُمار ویہ ، جلدی سے بہت سے تحائف لے کر خلیفہ معتضد باللہ کی خدمت میں پہنچ گیا ۔ خلیفہ معتضد باللہ کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ اپنے شہزادے مکتفی باللہ کی شادی میری بیٹی سے کر دے ۔ اس وقت مکتفی باللہ ولی تھا۔
خما رویہ کی صابزادی قطرالندی جس کا نام آسماء تھا ، نہایت حسین و جمیل اور ہو شیار لڑکی تھی  جس کی عقل و ادب اور حسن و جمال کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ خلیفہ نے خما رویہ سے کہا :’’ تمہاری صابزادی قطر الندی سے میں خود شادی کرنے کا خواہشمند ہوں۔،،
خما رویہ نے 282 ھ یا 281 میں اپنی بیٹی کی شادی خلیفہ متعضد باللہ سے کر دی۔ اس کے مہر کی رقم دس لاکھ درہم تھی۔ چونکہ قطرالندی بہت زیادہ خوبصورت تھی ، اس لیے خلیفہ نے اس کے اکرام میں کچھ زیادہ ہی دھیان دیا۔
خلیفہ نے اپنی ایک الگ مجلس قائم کی ، اس میں دنیا جہان کی آرائش و زیبائش کا اہتمام کیا، پھر خلیفہ اپنی د لہن قطرالندی کو لے گیا تاکہ اس سے انس اور قرار حاصل کرے۔ قطر الندی نے خلیفہ کے ہاتھ سے گلاس لے لیا اور خلیفہ اپنا رخسار اس کی ران پر رکھ کر سو گیا۔
جب خلیفہ کو گہری نیند آگئی تو قطرالندی نے اس کا سر اٹھا کر تکیہ پر رکھ دیا اور کمرے سے نکل کر قصر شاہی کے آنگن میں جا کر بیٹھ گئی۔

خلیفہ کی جب آنکھ کھلی تو کمرہ میں بیوی کو نا پا کر سخت ناراض ہوا اور زور دار آواز دی۔ قطرالندی قریب ہی موجود تھی، اس نے آہستگی سے جواب دیا۔
خلیفہ کہنے لگا ؛کیا میں نے تیری عزت و اکرام کی خاطر یہ مجلس قائم نہ کی تھی؟ کیا میں اپنی دیگر بیویوں کو نظر انداز کر کے خصوصی طور پر تجھ پر دل و جان سے فدا نہیں تھا؟
پھر بھی تو میرا سر تکیہ پر رکھ مجھے کمرے میں اکیلا چھوڑ کر نکل گئی؟
قطر الندی کہنے لگی: امیر المومنین! آپ نے جو مجھے اکرام و انعام بخشا ہے اس سے انکار ہے نہ میں اس کی نا قدری کرتی ہوں؛ البتہ میں نے اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ایسا کیا ہے ۔

میرے ابو جان کہا کرتے تھے :
’’ بیٹھے ہوئے لوگوں کے درمیان سویا نہ کرو اور نہ سونے والے کے ساتھ بیٹھا کرو۔،،
خلیفہ کو اپنی اہلیہ کی بات اچھی لگی اور اس کا غصہ کافور ہو گیا۔
والدین کی اور بزرگوں کی نصحیت پر عمل کرنے میں ہی فائدہ ہے۔ نصیحت پر عمل کرنے سے انسان نہت ساری پریشانیوں سے بچ سکتا ہے ۔ کیو نکہ والدین اور بزرگ اپنی زندگی کے تجربات سے  اپنے اولاد کی تربیت کرتے ہیں۔

2)
Advice


نصیحت
Advice  Urdu stories
انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا لمحہ آتا ہے کہ کسی کی نصیحت ( ایڈاوائس) زندگی سنوارنے کا سبب بن جاتی ہے۔
اسما ء
جو بچپن سے ہی بہت شرارتی تھی، گھر ،محلے اور سکول میں کوئی بھی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ تھا۔ نہ پسندیدہ حرکتوں کے باعث ہر کوئی اس سے ناراض رہتا تھا۔
گھر میں سب سے چھوٹی تھی اس لیے سوائے ابا جان کے ہر کوئی اس سے کو ڈانٹتا تھا۔
جس کی وجہ سے مزید ضدی ہو گئی تھی۔ ایک روز امی جان ہمسائی سے شرارتوں کے قصَے بیان کر رہی تھی۔میری بیٹی نہی آسمانی آفت ہے ۔ بہرحال  شرارتوں کا سلسلہ جا رہا۔جیسے جیسے بچپن گزرتا گیا۔ ، میرے دیگر عادتیں چھوٹتی گیئں ،مگر ایک بُری عادت میٹرک تک پہنچنے کے باوجود نہ چھوٹ سکی اور وہ تھی زور سے لات مار کر دروازہ کھولنے کی عادت ۔ گھر میں اکثر جب مہمانوں کے سامنے یہ حرکت سر زد ہو جاتی، تو مجھے کوئی خاص ندامت نہ ہوتی۔
مگر گھر والوں کو بہت شرمندگی ہوتی ، فورًا ہی اپنی خفت مٹانے کے لیے کہہ دیتے ہماری اسماء کی عادت ہی ایسی ہے۔ دسویں کلاس میں پہنچ گئی ہے مگر دروازہ پاؤں سے ہی کھولتی ہے۔ ایک روز چند کلاس فیلوز کے ساتھ کینٹین سے واپس آرہی تھی ،سب سے آگے میں ہی تھی دوسری کلاس فیلوز پچھے تھیں کہ جسے ہی کلاس روم کا دروازہ آیا ، میں نے حسب عادت زوردار دھکا دیا اور دروازہ دھڑام کی آواز کے ساتھ دیوار سے ٹکرایا ۔ کلاس شروع ہو چکی تھی۔ اچانک یوں دروازے کے دیوار سے ٹکرانے کی خوفناک آواز سے کلاس میں موجود ساری لڑکیوں کی چخیں نکل گیں۔اس دوران میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو اوپر کی سانس اوپر نیچے کی نیچے ہی رہ گئی ۔ میرے سامنے ڈسپلن کی سخت پابند ، کلاس انچارج ،مس نصرت شاہین خون خوار آنکھوں سے گھور ریہں تھیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ مار نیہں ، پیار کے اُصولوں پر کار بند تھیں۔ مگر اس روز برداشت نہ کر سکیں اور مجھے دو ٹھپر جڑکر پورا پیریڈ کلاس سے باہر کھڑے رہنے کی سزا دی۔اس عزت افزائی پر کلاس ، خصوصاً اپنے گروپ کی لڑکیوں کے سامنے مجھے نے حد شرمندگی ہوئی اُس دن پکاّ اردہ کر لیا کہ آ ئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گی ۔ ہماری کلاس آفیس کے ساتھی ، اس لیے آفس آتی جاتی ٹیچرز اور دیگر لڑکیاں بھی مجھے بے بسی کی تصویر بنے ، شرارت کی سزا بھگتتے دیکھتی رہیں۔  کوئی دانت نکال کر کہتا اچھا ہے ، سبق مل جائے ، باپ کے دروازے سمجھ رکھے ہیں، ٹورنا حق سمجھتی ہے۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں بڑی سے بڑی بیماری چھوٹ جاتی ہے مگر بُری عادت نہیں۔
چند دن بعد ہی یہ واقع بھول گئی
ایک دن ہم سب کلاس باہر صحن میں دھوپ سینک رہے تھے ، کہ مجھے پیاس محسوس ہوئی اور میں پانی پینے کلاس کی طرف گئی اور حسب عادت زوردار لات مار کے ابھی آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ اچانک پچھے سے آواز آئی ’’ کیوں بیٹا دروازہ ٹورنے کا ارادہ ہے ،، ؟ جسے ہی پچھے مڑ کر دیکھا وہی ہماری کلاس انچارج چند لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔
میرے چہرے پر ہوائیں اُڑنے لگیں ۔ دل ڈوب گیا کہ اب کیا ہو گا۔ اب کون سی سزا ملے گی، لیکن خلاف توقع ٹیچر نے ٹھورا آگے بڑھ کر جو الفاظ کہے ، وہ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو گئے ،، اسماء بیٹی یہ ایک بہودہ حرکت ہے ۔ میں تو معاف کر دوں گی ، تمہارے گھر والے شائد ان حرکتوں کے عادی ہو چکے ہوں ، آگے کا کبھی سوچا ہے؟ اگر یہی عادت رہی نہ صرف تم کو شرمندگی اُٹھانی پڑے گی بلکہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اپنی اس عادت پر قابو پانے کی کوشش کرو ۔ اُن کی پیار بھری نصیحت نے مجھے بہت متاثر کیا ، اُس دن کے بعد دروازے کو پاؤں سے دھکا مار کر کھولنا چھوڑ دیا۔
یقناً مار سے کوئی نہیں سدھر سکتا ۔ پیار ہی قیمتی ہتیار ہے ۔ بچے ما ر سے نیں پیا ر سے سکھتے ہیں ۔

Urdu stories


 نصیحت
Advice
انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا لمحہ آتا ہے کہ کسی کی نصیحت ( ایڈاوائس) زندگی سنوارنے کا سبب بن جاتی ہے۔  
اسما ء
 جو بچپن سے ہی بہت شرارتی تھی، گھر ،محلے اور سکول میں کوئی بھی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ تھا۔ نہ پسندیدہ حرکتوں کے باعث ہر کوئی اس سے ناراض رہتا تھا۔
گھر میں سب سے چھوٹی تھی اس لیے سوائے ابا جان کے ہر کوئی اس سے کو ڈانٹتا تھا۔
جس کی وجہ سے مزید ضدی ہو گئی تھی۔ ایک روز امی جان ہمسائی سے شرارتوں کے قصَے بیان کر رہی تھی۔میری بیٹی نہی آسمانی آفت ہے ۔ بہرحال  شرارتوں کا سلسلہ جا رہا۔جیسے جیسے بچپن گزرتا گیا۔ ، میرے دیگر عادتیں چھوٹتی گیئں ،مگر ایک بُری عادت میٹرک تک پہنچنے کے باوجود نہ چھوٹ سکی اور وہ تھی زور سے لات مار کر دروازہ کھولنے کی عادت ۔ گھر میں اکثر جب مہمانوں کے سامنے یہ حرکت سر زد ہو جاتی، تو مجھے کوئی خاص ندامت نہ ہوتی۔
مگر گھر والوں کو بہت شرمندگی ہوتی ، فورًا ہی اپنی خفت مٹانے کے لیے کہہ دیتے ہماری اسماء کی عادت ہی ایسی ہے۔ دسویں کلاس میں پہنچ گئی ہے مگر دروازہ پاؤں سے ہی کھولتی ہے۔ ایک روز چند کلاس فیلوز کے ساتھ کینٹین سے واپس آرہی تھی ،سب سے آگے میں ہی تھی دوسری کلاس فیلوز پچھے تھیں کہ جسے ہی کلاس روم کا دروازہ آیا ، میں نے حسب عادت زوردار دھکا دیا اور دروازہ دھڑام کی آواز کے ساتھ دیوار سے ٹکرایا ۔ کلاس شروع ہو چکی تھی۔ اچانک یوں دروازے کے دیوار سے ٹکرانے کی خوفناک آواز سے کلاس میں موجود ساری لڑکیوں کی چخیں نکل گیں۔اس دوران میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو اوپر کی سانس اوپر نیچے کی نیچے ہی رہ گئی ۔ میرے سامنے ڈسپلن کی سخت پابند ، کلاس انچارج ،مس نصرت شاہین خون خوار آنکھوں سے گھور ریہں تھیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ مار نیہں ، پیار کے اُصولوں پر کار بند تھیں۔ مگر اس روز برداشت نہ کر سکیں اور مجھے دو ٹھپر جڑکر پورا پیریڈ کلاس سے باہر کھڑے رہنے کی سزا دی۔اس عزت افزائی پر کلاس ، خصوصاً اپنے گروپ کی لڑکیوں کے سامنے مجھے نے حد شرمندگی ہوئی اُس دن پکاّ اردہ کر لیا کہ آ ئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گی ۔ ہماری کلاس آفیس کے ساتھی ، اس لیے آفس آتی جاتی ٹیچرز اور دیگر لڑکیاں بھی مجھے بے بسی کی تصویر بنے ، شرارت کی سزا بھگتتے دیکھتی رہیں۔  کوئی دانت نکال کر کہتا اچھا ہے ، سبق مل جائے ، باپ کے دروازے سمجھ رکھے ہیں، ٹورنا حق سمجھتی ہے۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں بڑی سے بڑی بیماری چھوٹ جاتی ہے مگر بُری عادت نہیں۔
چند دن بعد ہی یہ واقع بھول گئی
ایک دن ہم سب کلاس باہر صحن میں دھوپ سینک رہے تھے ، کہ مجھے پیاس محسوس ہوئی اور میں پانی پینے کلاس کی طرف گئی اور حسب عادت زوردار لات مار کے ابھی آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ اچانک پچھے سے آواز آئی ’’ کیوں بیٹا دروازہ ٹورنے کا ارادہ ہے ،، ؟ جسے ہی پچھے مڑ کر دیکھا وہی ہماری کلاس انچارج چند لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔
میرے چہرے پر ہوائیں اُڑنے لگیں ۔ دل ڈوب گیا کہ اب کیا ہو گا۔ اب کون سی سزا ملے گی، لیکن خلاف توقع ٹیچر نے ٹھورا آگے بڑھ کر جو الفاظ کہے ، وہ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو گئے ،، اسماء بیٹی یہ ایک بہودہ حرکت ہے ۔ میں تو معاف کر دوں گی ، تمہارے گھر والے شائد ان حرکتوں کے عادی ہو چکے ہوں ، آگے کا کبھی سوچا ہے؟ اگر یہی عادت رہی نہ صرف تم کو شرمندگی اُٹھانی پڑے گی بلکہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اپنی اس عادت پر قابو پانے کی کوشش کرو ۔ اُن کی پیار بھری نصیحت نے مجھے بہت متاثر کیا ، اُس دن کے بعد دروازے کو پاؤں سے دھکا مار کر کھولنا چھوڑ دیا۔
یقناً مار سے کوئی نہیں سدھر سکتا ۔ پیار ہی قیمتی ہتیار ہے ۔ بچے ما ر سے نیں پیا ر سے سکھتے ہیں ۔



 نصیحت
Advice
انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا لمحہ آتا ہے کہ کسی کی نصیحت ( ایڈاوائس) زندگی سنوارنے کا سبب بن جاتی ہے۔  
اسما ء
 جو بچپن سے ہی بہت شرارتی تھی، گھر ،محلے اور سکول میں کوئی بھی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ تھا۔ نہ پسندیدہ حرکتوں کے باعث ہر کوئی اس سے ناراض رہتا تھا۔
گھر میں سب سے چھوٹی تھی اس لیے سوائے ابا جان کے ہر کوئی اس سے کو ڈانٹتا تھا۔
جس کی وجہ سے مزید ضدی ہو گئی تھی۔ ایک روز امی جان ہمسائی سے شرارتوں کے قصَے بیان کر رہی تھی۔میری بیٹی نہی آسمانی آفت ہے ۔ بہرحال  شرارتوں کا سلسلہ جا رہا۔جیسے جیسے بچپن گزرتا گیا۔ ، میرے دیگر عادتیں چھوٹتی گیئں ،مگر ایک بُری عادت میٹرک تک پہنچنے کے باوجود نہ چھوٹ سکی اور وہ تھی زور سے لات مار کر دروازہ کھولنے کی عادت ۔ گھر میں اکثر جب مہمانوں کے سامنے یہ حرکت سر زد ہو جاتی، تو مجھے کوئی خاص ندامت نہ ہوتی۔
مگر گھر والوں کو بہت شرمندگی ہوتی ، فورًا ہی اپنی خفت مٹانے کے لیے کہہ دیتے ہماری اسماء کی عادت ہی ایسی ہے۔ دسویں کلاس میں پہنچ گئی ہے مگر دروازہ پاؤں سے ہی کھولتی ہے۔ ایک روز چند کلاس فیلوز کے ساتھ کینٹین سے واپس آرہی تھی ،سب سے آگے میں ہی تھی دوسری کلاس فیلوز پچھے تھیں کہ جسے ہی کلاس روم کا دروازہ آیا ، میں نے حسب عادت زوردار دھکا دیا اور دروازہ دھڑام کی آواز کے ساتھ دیوار سے ٹکرایا ۔ کلاس شروع ہو چکی تھی۔ اچانک یوں دروازے کے دیوار سے ٹکرانے کی خوفناک آواز سے کلاس میں موجود ساری لڑکیوں کی چخیں نکل گیں۔اس دوران میری نظر جیسے ہی سامنے پڑی تو اوپر کی سانس اوپر نیچے کی نیچے ہی رہ گئی ۔ میرے سامنے ڈسپلن کی سخت پابند ، کلاس انچارج ،مس نصرت شاہین خون خوار آنکھوں سے گھور ریہں تھیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ مار نیہں ، پیار کے اُصولوں پر کار بند تھیں۔ مگر اس روز برداشت نہ کر سکیں اور مجھے دو ٹھپر جڑکر پورا پیریڈ کلاس سے باہر کھڑے رہنے کی سزا دی۔اس عزت افزائی پر کلاس ، خصوصاً اپنے گروپ کی لڑکیوں کے سامنے مجھے نے حد شرمندگی ہوئی اُس دن پکاّ اردہ کر لیا کہ آ ئندہ ایسی حرکت نہیں کروں گی ۔ ہماری کلاس آفیس کے ساتھی ، اس لیے آفس آتی جاتی ٹیچرز اور دیگر لڑکیاں بھی مجھے بے بسی کی تصویر بنے ، شرارت کی سزا بھگتتے دیکھتی رہیں۔  کوئی دانت نکال کر کہتا اچھا ہے ، سبق مل جائے ، باپ کے دروازے سمجھ رکھے ہیں، ٹورنا حق سمجھتی ہے۔ سیانے ٹھیک کہتے ہیں بڑی سے بڑی بیماری چھوٹ جاتی ہے مگر بُری عادت نہیں۔
چند دن بعد ہی یہ واقع بھول گئی
ایک دن ہم سب کلاس باہر صحن میں دھوپ سینک رہے تھے ، کہ مجھے پیاس محسوس ہوئی اور میں پانی پینے کلاس کی طرف گئی اور حسب عادت زوردار لات مار کے ابھی آگے بڑھنے ہی لگی تھی کہ اچانک پچھے سے آواز آئی ’’ کیوں بیٹا دروازہ ٹورنے کا ارادہ ہے ،، ؟ جسے ہی پچھے مڑ کر دیکھا وہی ہماری کلاس انچارج چند لڑکیوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔
میرے چہرے پر ہوائیں اُڑنے لگیں ۔ دل ڈوب گیا کہ اب کیا ہو گا۔ اب کون سی سزا ملے گی، لیکن خلاف توقع ٹیچر نے ٹھورا آگے بڑھ کر جو الفاظ کہے ، وہ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو گئے ،، اسماء بیٹی یہ ایک بہودہ حرکت ہے ۔ میں تو معاف کر دوں گی ، تمہارے گھر والے شائد ان حرکتوں کے عادی ہو چکے ہوں ، آگے کا کبھی سوچا ہے؟ اگر یہی عادت رہی نہ صرف تم کو شرمندگی اُٹھانی پڑے گی بلکہ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ اپنی اس عادت پر قابو پانے کی کوشش کرو ۔ اُن کی پیار بھری نصیحت نے مجھے بہت متاثر کیا ، اُس دن کے بعد دروازے کو پاؤں سے دھکا مار کر کھولنا چھوڑ دیا۔
یقناً مار سے کوئی نہیں سدھر سکتا ۔ پیار ہی قیمتی ہتیار ہے ۔ بچے ما ر سے نیں پیا ر سے سکھتے ہیں ۔




  
ADVICE نصیحت| Urdu stories ADVICE نصیحت| Urdu stories Reviewed by online marketing on جنوری 17, 2020 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.