مرازا اسداللہ خاں غالبؔ
اصل نام اسد اللہ خاں اور تَخلّص غالبؔ تھا ۔ غالبؔ نے اُردو فارسی دونوں
میں شاعری کی ۔ اُردو شاعری میں اُن کا مقام بہت بلند ہے، جسے سب سے نے تسلیم کیا
ہے۔ وہ بہت زیادہ وسعتِ نظر رکھتے تھے۔ غالبؔ ہر دور کے اہم شاعر ہیں ۔ ان
کی فنی عظمت کو ہر ایک نے سراہا ہے۔ ان کی ہمہ گیر شخصیت کی طرح ان کی شاعری میں
بھی بڑا تنوع ہے ۔ غالبؔ کی اہم تصانیف میں : ’’دیوانِ غالبؔ ،،
دیوانِ فارسی ،، گلِ رعنا ، مہرِ نیمروز ، دستبنو ، قاطعِ برہان، لطائف غیبی ،
قادر نامہ ، عودی اور اُردو ئے معلٰی شامل ہیں۔
غزل مرزا غالبؔ
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس دارد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مُشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی ! یہ ماجرا کیا ہے
میں بھی مُنھ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پُوچھو کہ مدّعا کیا ہے
ہم کو اُن سے ،وفا کی ہے اُمید
جو نہیں جانتے ، وفا کیا ہے
ہاں بھلا کر تیرا بھلا ہوگا
اور درویش کی صدا کیا ہے
جان تُم پر نثار کرتا ہوں
مین نہیں جانتا دُعا کیا ہے
میں نے مانا کہ کُچھ نہیں غالبؔ
مُفت ہاتھ آئے ، تو بُرا کیا ہے
2) مرزا غالبؔ شاعری)
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں پردیکھے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جومے ونغمہ کو انداز وہ ربا کہتے ہیں
دل میں آجاتے ہیں ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خار رہ کو ترے ہم مہر گیا کہتے ہیں
اک شر دل میں ہے اس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کیہتے ہیں
دیکھئے لاتی ہے اس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں
وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شایئد
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا کہتے ہیں
مرزا غالبؔ
Mirza ghalib مرزا غالبؔ شاعری
Reviewed by online marketing
on
جنوری 19, 2020
Rating:
کوئی تبصرے نہیں: